گزر چکی ہے جو شب اضطراب کیسا ہے
گزر چکی ہے جو شب اضطراب کیسا ہے
افق پہ ہوش ربا التہاب کیسا ہے
وجودیت کا یہ رنگیں سراب کیسا ہے
ہر ایک چہرے پہ مبہم نقاب کیسا ہے
رہیں گے مرحلے تعزیر کے جو مر کر بھی
یہ زندگی کا مسلسل عذاب کیسا ہے
خدا ہی جانے کہ دن میں طویل رات کے بعد
ہیں شب گزیدہ جو سب احتساب کیسا ہے
وہ حال پوچھنے آئے تو میں خموش رہا
سوال خوب تھا لیکن جواب کیسا ہے
کتاب لاکھ پرانی سہی مگر اس پر
چھپا ہے اب جو نیا انتساب کیسا ہے
ہے معرفت کا سفر آگہی سے حیرت تک
مراجعت کا جو ہو ارتکاب کیسا ہے
وطائے کاہکشاں پر زمیں کے بارے میں
جو بھیگی آنکھوں نے دیکھا وہ خواب کیسا ہے
میں جانتا ہوں مگر تو بھی آئنہ لے کر
مجھے بتا کہ مرا انتخاب کیسا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.