گزرنے کو تو اپنی زندگی اب بھی گزرتی ہے
گزرنے کو تو اپنی زندگی اب بھی گزرتی ہے
مگر ایسے کہ جیسے چوب سے آری گزرتی ہے
ترا ملنا ترا مل کر بچھڑنا یاد آتا ہے
کسی سگنل پہ رک کر جب کوئی گاڑی گزرتی ہے
مرا دن بھی مری شب کی طرح تاریک رہتا ہے
یہ کیسی رات ہے جو صبح تک آدھی گزرتی ہے
مری خاموش دستک پر کھلے جاتے ہیں دروازے
صدائے بے صدا کمروں سے کچھ جلدی گزرتی ہے
مرے کمرے میں جب پہلی کرن سورج کی آتی ہے
فنا کے کرب سے شب بھر کی تاریکی گزرتی ہے
کسی نا خواندہ بوڑھے کی طرح خط اس کا پڑھتا ہوں
کہ سو سو بار ہر اک لفظ سے انگلی گزرتی ہے
ہمارے گاؤں میں اب کوئی بھی گاڑی نہیں رکتی
اگرچہ ریل کی پٹری یوں ہی اب بھی گزرتی ہے
مری مانو تو اپنے بند کمرے میں چلے جاؤ
کبھی تنہائی میں بھی زندگی اچھی گزرتی ہے
ہمیشہ تھام کر رکھتا ہوں میں امید کا دامن
بہت مایوس ہو کر مجھ سے مایوسی گزرتی ہے
گزر آیا ہوں اس بستی سے میں اطہر عظیمؔ آخر
مرے اندر سے اب ہر روز اک بستی گزرتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.