گزشتہ شب یوں لگا کہ اندر سے کٹ رہا ہوں
گزشتہ شب یوں لگا کہ اندر سے کٹ رہا ہوں
میں اس اذیت میں ساٹھ پینسٹھ منٹ رہا ہوں
تو مجھ کو رونے دے یار شانے پہ ہاتھ مت رکھ
میں گیلے کاغذ کی طرح چھونے سے پھٹ رہا ہوں
وہ ہجر تھا جس نے نم کیا اور بل نکالے
میں جتنا سیدھا ہوں اس کا بالکل الٹ رہا ہوں
سنا تھا ہر ایک شے حرارت سے پھیلتی ہے
تو آگ ہے پاس ہے تو میں کیوں سمٹ رہا ہوں
پڑوس میں پیڑ کٹ رہا ہے میں کان ڈھانپے
درخت کے فائدوں پہ مضمون رٹ رہا ہوں
اخیر بے کار شے تھا میں کار عشق سے قبل
سمجھ لے سوکھے ہوئے کنویں کا رہٹ رہا ہوں
مہک تھی وحشت کی اس بدن میں عمیر نجمیؔ
گلے ملا تو لگا میں خود سے لپٹ رہا ہوں
- کتاب : آخری تصویر (Pg. 56)
- Author : عمیر نجمی
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2024)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.