حد امکان خلاؤں سے پرے مانگتا ہے
حد امکان خلاؤں سے پرے مانگتا ہے
لفظ وہ اپنے خیالوں سے بڑے مانگتا ہے
روز ہوتا ہے ہمیشہ کے لیے مجھ سے جدا
روز اٹھ کر وہ تہجد میں مجھے مانگتا ہے
ایک عرصہ ہوا اس ترک مراسم کو مگر
اب بھی وہ مجھ سے محبت کے صلے مانگتا ہے
زندگی عشق بتاں میں ہے گزاری جس نے
اب وہ مندر بھی فرشتوں سے بھرے مانگتا ہے
ایک ٹوٹی ہوئی کشتی کا مسافر ہے مگر
قلزم درد کناروں پہ چڑھے مانگتا ہے
جو دعاؤں کو سمجھتا تھا زیاں حرفوں کا
لوگ لاکھوں وہ جنازے میں کھڑے مانگتا ہے
اپنے دشمن سے وہ چھپنے کے لیے مجھ سے نعیمؔ
اپنے بچھڑے ہوئے یاروں کے پتے مانگتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.