ہیں منتظر آنکھیں کوئی اک خواب تو آئے
ہیں منتظر آنکھیں کوئی اک خواب تو آئے
ساحل نہیں آتا ہے تو گرداب تو آئے
صحرا کے خد و خال سے کھیلوں میں کہاں تک
رستے میں کوئی خطۂ شاداب تو آئے
کیا فکر جو پیکر سے وہ مہتاب نہیں ہے
پہنے ہوئے پیراہن مہتاب تو آئے
افلاک یہ کہتے ہیں ہوئی بزم مکمل
کہتے ہیں ستارے مرا مہتاب تو آئے
جو وقت کی لکھی ہوئی تحریر مٹا دے
بازار میں ایسا کوئی تیزاب تو آئے
جن لوگوں نے دیکھی نہیں ڈوبی ہوئی بستی
وہ لوگ دعا کرتے ہیں سیلاب تو آئے
سنتا ہوں کہ ہر شخص پڑھے اس کا قصیدہ
اک بار شناور وہ تہہ آب تو آئے
آ جائیں گے آہو بھی جھکائے ہوئے گردن
شمشیر ہنر میں تری کچھ آب تو آئے
کس کام کے تھے پھینک دیے دشت زیاں میں
ہاتھوں میں کئی گوہر نایاب تو آئے
سوکھے ہوئے ہونٹ اپنے دکھا دیں گے اسے ہم
پہلے ہمیں کرنے کوئی سیراب تو آئے
ہر شخص سے ملتا ہے نئے کنج نفس میں
یاورؔ کو ملاقات کے آداب تو آئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.