Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

حقیقت میں مجازی عشق کا یوں رنگ بھرتا ہوں

حامد حسین حامد

حقیقت میں مجازی عشق کا یوں رنگ بھرتا ہوں

حامد حسین حامد

MORE BYحامد حسین حامد

    حقیقت میں مجازی عشق کا یوں رنگ بھرتا ہوں

    خدا کا نام لے لے کر بتوں کی چاہ کرتا ہوں

    حسیں ملتے نہیں پھر بھی ہوس ملنے کی کرتا ہوں

    یہ قدر زندگی کرتا ہوں نا قدروں پہ مرتا ہوں

    وفور ضعف میں کیا خاک آہ سرد بھرتا ہوں

    کلیجا تھام لیتا ہوں تو کوئی بات کرتا ہوں

    تلاش دل میں جب میں کوئے جاناں سے گزرتا ہوں

    تو اک اک ذرے کو جھک جھک کے لاکھوں سجدے کرتا توں

    کرو بھی امتحاں میرا ابھی سر نذر کرتا ہوں

    ڈراؤ اور کو تم میں کہاں مرنے سے ڈرتا ہوں

    بلاتا ہوں کبھی ان کو طلب ان کو جو کرتا ہوں

    تو کہتے ہیں ابھی آتا ہوں بنتا ہوں سنورتا ہوں

    تمہیں جانچو تمہیں دیکھو تمہیں سوچو تمہیں سمجھو

    مکرتے ہو قسم کھا کھا کے تم یا میں مکرتا ہوں

    بھروسا کیا ثبات زندگی کا بحر ہستی میں

    حبابوں کی طرح میں ٹوٹتا ہوں جب ابھرتا ہوں

    اثر لطف و غضب میں تیرے ایسا ہے کہ ہر عاشق

    کبھی کہتا ہے جیتا ہوں کبھی کہتا ہے مرتا ہوں

    نظر آتا ہے اک پردے میں جلوہ دونوں عالم کا

    مئے وحدت سے جام معرفت کو اپنے بھرتا ہوں

    تجھے پاؤں تو سر پر رکھوں آنکھوں پر بٹھاؤں میں

    تصور میں یہی بیٹھا خیالی نقش بھرتا ہوں

    نہ میں نے کچھ کہا تم سے نہ تم نے کچھ کہا ہم سے

    یہی حسرت لئے میں آج دنیا سے گزرتا ہوں

    اگر باعث کوئی مرنے کا ہوتا تو نہ غم ہوتا

    مگر افسوس اس کا ہے کہ میں بے موت مرتا ہوں

    نہیں کچھ پرسش محشر کا غم ہاں ان سے کھٹکا ہے

    قیامت سے نہیں ڈرتا تری چالوں سے ڈرتا ہوں

    مآل کار پر عشق و محبت میں نظر کیسی

    جو کچھ کرنا مجھے ہوتا ہے اس کو کر گزرتا ہوں

    سمجھتا ہوں کہ جیتے جی ہوا فردوس میں داخل

    ترے کوچے میں چلتے پھرتے جب آ کر ٹھہرتا ہوں

    لیا صیاد سے ڈر کر جو قصد اڑنے کا بلبل نے

    کہا دست مقدر نے ٹھہر میں پر کترتا ہوں

    مآل عشق اے حامدؔ جو کچھ ہونا تھا ہوتا ہے

    بتوں کے جبر سہتا ہوں خدا کا شکر کرتا ہوں

    مأخذ:

    دیوان حامد (Pg. 175)

    • مصنف: حامد عظیم آبادی
      • ناشر: کتابستان، پٹنہ
      • سن اشاعت: 1979

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے