ہر چند لہو اب تک ہر زخم سے جاری ہے
ہر چند لہو اب تک ہر زخم سے جاری ہے
پھر بھی دل دیوانہ پتھر کا پجاری ہے
ہم نے جو بیاباں میں اک رات گزاری ہے
اس شہر نگاراں کی ہر رات پہ بھاری ہے
اظہار ستم ان سے کرتے بھی تو کیا کرتے
شائستہ غم ہونا تہذیب ہماری ہے
زخموں کی نمائش سے دنیا کا تعلق کیا
تیرے ہی لیے میں نے یہ بزم سنواری ہے
پوجا ہے اسے میرا فن جان کے دنیا نے
میں نے جو زمانے کی تصویر اتاری ہے
کچھ لوگ پلٹ آئے گھبرا کے رہ غم سے
اب دیکھیے کیا ٹھہرے دیوانوں کی باری ہے
پوچھے تو کوئی آخر ان ہنستے گلابوں سے
آغوش میں کانٹوں کے کس طرح گزاری ہے
ہو جائیں نہ پھر شاداںؔ یادوں کے دیے روشن
اک عمر کے بعد اس نے پھر زلف سنواری ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.