ہر اک رشتہ کہانی ہو چلا ہے
ہر اک رشتہ کہانی ہو چلا ہے
ہمارا خون پانی ہو چلا ہے
حقیقت خوف کی صورت ہے دل میں
اب انساں داستانی ہو چلا ہے
فضا میں گونجتی ہے شب کی آہٹ
افق بھی زعفرانی ہو چلا ہے
پرے رکھو یہ ماہ و سال کا غم
شعور اب لا مکانی ہو چلا ہے
ذرا سورج جھکا ہی تھا زمیں پر
تپش سے برف پانی ہو چلا ہے
ظفرؔ دونوں طرف کے لوگ خوش ہیں
وہ شاید درمیانی ہو چلا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.