حرف غزل کو درد میں ڈھلتے ہوئے بھی دیکھ
دلچسپ معلومات
شکیب جلالی (یکم اکتوبر 1934 ۔ خودکشی : بارہ نومبر 1966) کی یاد میں لکھی گئی یہ غزل۔ اس کی وجہ ایک اور حقیقت ہے۔ شکیب کی خودکشی کی اطلاع جس دن اخبار میں شائع ہوئی تھی، اسی دن ان کی مشہور غزل "مرجھا کے کالی جھیل میں گرتے ہوئے بھی دیکھ" رشید افروز صاحب نے ایک ڈائجسٹ میں پڑھی۔ اور اسی سے متاثر ہو کر فی البدیہ یہ غزل تخلیق ہوئی۔ جو بھوپال سے نکلنے والے رسالہ "مزاج" میں شائع بھی ہوئی۔
حرف غزل کو درد میں ڈھلتے ہوئے بھی دیکھ
شہر سخن کی شمع پگھلتے ہوئے بھی دیکھ
خوشبو کے چند پھولوں کی ناکام آرزو
شہر وفا کی آگ میں جلتے ہوئے بھی دیکھ
جھلسے ہوئے خیال کے صحرا میں ڈوب جا
ذروں کی تہہ میں تشنگی جلتے ہوئے بھی دیکھ
قدموں کے خار بوجھ تھے دنیا ترے لئے
پیروں بغیر آج اسے چلتے ہوئے بھی دیکھ
معصوم بیوی بچوں کے لب کی ہنسی کو آج
غم کی قبائے زرد میں ڈھلتے ہوئے بھی دیکھ
دلہن بنیں گی بہنیں یہ حسرت لئے ہوئے
اس کا جنازہ گھر سے نکلتے ہوئے بھی دیکھ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.