حسرت ہے تیری دید کا موسم تو ہو کبھی
حسرت ہے تیری دید کا موسم تو ہو کبھی
آنکھوں کو اک نگاہ کا مرہم تو ہو کبھی
گرچہ ہے میرے دل میں بسیرا کئے ہوئے
دھڑکن سے دل کا فاصلہ مبہم تو ہو کبھی
پہلو جلائے لاکھ مگر تیرگی نہ دے
دھڑکن میں چاند رات سا عالم تو ہو کبھی
تیرے قریب بیٹھ کے احوال دل کہیں
اے کاش ایسی گفتگو باہم تو ہو کبھی
پھر سے طلسم خواب میں رہنے لگی ہے آنکھ
صحرا مری نگاہ کا محرم تو ہو کبھی
ہم ہیں رہین آرزو اور التجا بھی ہیں
مانگے بغیر دید کا موسم تو ہو کبھی
دھڑکن کی بانسری میں نیا سوز آ گیا
دل میں کسی کے پیار کا سرگم تو ہو کبھی
برسوں کے بعد مل کے تکلف سا آ گیا
آپس میں التفات کا عالم تو ہو کبھی
خوشبو کے ہاتھ آئے کبھی ریشمی پیام
میری قبا پہ رنگ کا موسم تو ہو کبھی
صحن چمن میں پھول نئی بات کر گیا
صحرا کسی گلاب کا مرہم تو ہو کبھی
گرچہ ہے ریگزار سا میرا مزاج پر
بارش مرے مکان پہ پیہم تو ہو کبھی
کوئی پگھل رہا تھا شب ہجر آنکھ میں
سوز جنوں کی راگنی مدھم تو ہو کبھی
کیسے پتہ چلے گا کہ نیلمؔ کو پیار ہے
وعدہ خلافی ہونے پہ برہم تو ہو کبھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.