ہوائیں لاکھ چلیں لو سنبھلتی رہتی ہے
ہوائیں لاکھ چلیں لو سنبھلتی رہتی ہے
دیے کی روح میں کیا چیز جلتی رہتی ہے
کسے خبر کہ یہ اک دن کدھر کو لے جائے
لہو کی موج جو سر میں اچھلتی رہتی ہے
اگر کہوں تو تمہیں بھی نہ اعتبار آئے
جو آرزو مرے دل میں مچلتی رہتی ہے
مدار سے نہیں ہٹتا کوئی ستارا کیوں
یہ کس حصار میں ہر چیز چلتی رہتی ہے
وہ آدمی ہوں ستارے ہوں یا تمنائیں
سمے کی راہ میں ہر شے بدلتی رہتی ہے
یوںہی ازل سے ہے امجدؔ زمین گردش میں
کبھی سحر تو کبھی رات ڈھلتی رہتی ہے
- کتاب : Nazdik (Pg. 32)
- Author : Amjad Islam Amjad
- مطبع : Sang-e-Meel Publications, Lahore (2014)
- اشاعت : 2014
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.