Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

حجاب گنج مخفی میں نہاں تھے

عبدالعلیم آسی

حجاب گنج مخفی میں نہاں تھے

عبدالعلیم آسی

MORE BYعبدالعلیم آسی

    حجاب گنج مخفی میں نہاں تھے

    الٰہی ہم کہاں آئے کہاں تھے

    کسی نے بھی نہ دیکھا ہم جہاں تھے

    بدن تھے خلق ہم مانند جاں تھے

    بسان نالہ سر کھینچا ہے باہر

    ہم اہل درد کے دل میں نہاں تھے

    نکالا کرتے تھے بالوں کی کھالیں

    کبھی ہم بھی خیال شاعراں تھے

    رہے رستے میں قدموں سے چپٹ کر

    مگر ہم نقش پائے رفتگاں تھے

    جب اس کوچے کی حاصل تھی گدائی

    خداوند زمین و آسماں تھے

    ہوئے ظاہر بسان نور باطن

    دل ارباب دل میں ہم نہاں تھے

    ترے کوچے میں جب چلنا پڑا تھا

    بسان اشک آنکھوں سے رواں تھے

    کچھ ایسے نشۂ ہستی سے بہکے

    نہیں جانا کہاں آئے کہاں تھے

    سراپا درد تھے مانند دل ہم

    مرض تھے پر نصیب دوستاں تھے

    کہاں بات اس کی الفت کی کہاں دل

    یہ درہم گنج مخفی میں نہاں تھے

    نہ دوڑے جز سوائے کوچۂ یار

    مگر ہم بھی خیال دوستاں تھے

    نہ کیوں صیاد وقت مرگ آتا

    کہ ہم باغ جہاں میں مرغ جاں تھے

    نہ ہرگز بزم ساقی میں رکے ہم

    مگر دور‌‌ شراب ارغواں تھے

    حمائل تھے گلوئے دخت رز میں

    کے ہم دست خیال میکشاں تھے

    رہی راتوں کو اکثر سیر افلاک

    مگر ہم تیر آہ بے کساں تھے

    کہاں ڈالا خلل وصل عدوین

    گجر ہی تھے نہ ہم بانگ اذاں تھے

    بہار باغ ہستی تھی ہمیں سے

    نظر سے گو برنگ بو نہاں تھے

    عیاں ایسے کہ ہر شے میں نہاں ہم

    نہاں ایسے کہ ہر شے سے عیاں تھے

    نہ تھا معشوق جس میں غیر عاشق

    عجب خلوت تھی وہ بھی ہم جہاں تھے

    اٹھے ہم اٹھ گیا پردا دوئی کا

    ہمارے اس کے بس ہم درمیاں تھے

    چلیں زیر زمیں بے بال و پر آج

    کبھی ہم طائر عرش آشیاں تھے

    نہ شکر اس کا کیا تلوار کھا کر

    کہ زخم اپنے دہان بے زباں تھے

    کچھ ایسی تھی شب غم کی چڑھائی

    کہ نالے شمع بزم لامکاں تھے

    گئے وہ دن کہ ہر دم یہ جگر دل

    لہو بن بن کے آنکھوں سے رواں تھے

    نہ رہتے تھے ٹھکانے ایک ساعت

    کبھی ہم بھی حواس عاشقاں تھے

    گلستان جہاں میں کون ٹھہرا

    جو سرو آئے نظر سرو رواں تھے

    خدا نے ان کو پہنچایا ہدف تک

    خدنگ آہ تیر بے کماں تھے

    جو اس محفل میں ہم جانے بھی پائے

    پیا پے آنسو آنکھوں سے رواں تھے

    نہ نکلی بات منہ سے صور شمع

    زبان ایسی تھی گویا بے زباں تھے

    مرے پہلو میں کل بیٹھے تھے آسی

    مگر جب تک تھے مثل دل تپاں تھے

    مأخذ:

    دیوان آسی (Pg. 58)

    • مصنف: عبدالعلیم آسی
      • ناشر: نامعلوم تنظیم

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے