ہجر میں ناشاد دنیا سے دل مضطر گیا
آج اپنے ساتھ کا اک مرنے والا مر گیا
سننے والے خوب روئے میرے حال زار پر
یوں ہی اپنی عمر کا پیمانہ آخر بھر گیا
بازوئے قاتل تھکائے سخت جانی نے مری
بارہا اس ہاتھ سے اس ہاتھ میں خنجر گیا
ہم وہی گلشن وہی محفل وہی ساماں وہی
ایک ساقی کیا گیا لطف مے و ساغر گیا
ہو گئی غیروں کو بھی ناکام مرنے کی ہوس
میں کسی پر جان دے کر کام اپنا کر گیا
روح پرور ہے نگاہ ناز قاتل کا اثر
جس کو دیکھا جی اٹھا جس کو نہ دیکھا مر گیا
میں کبھی رویا تو وہ بولے ڈبویا نام عشق
اور اگر آنسو پی لئے تو دل میں دریا بھر گیا
ایسی ہی غفلت رہی گر میرے حال زار پر
ایک دن احباب سن لیں گے نظرؔ بھی مر گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.