ہوے خلق جب سے جہاں میں ہم ہوس نظارۂ یار ہے
ہوے خلق جب سے جہاں میں ہم ہوس نظارۂ یار ہے
ٹھہر اے اجل کہ وہ آئیں گے دم واپسیں کا قرار ہے
رہیں محو کیوں نہ ہر ایک دم کہ نظر میں جلوۂ یار ہے
دل منتظر ہے جو آئنہ تو خیال آئنہ دار ہے
یہ خطائے عشق کی دی سزا کہ مژہ سے مردم چشم نے
مرا دل دکھا کے یہ کہہ دیا اسے لو یہ قابل دار ہے
یہ خدا ہی جانے وہ کون تھا جو شہید ناز و ادا ہوا
کہ اڑی ہے خاک رہ صنم تو خزاں میں رنگ بہار ہے
ہوئیں ترک ساری محبتیں مرے سر پہ ڈھائی ہیں آفتیں
یہی دل کے لینے میں شرط تھی یہی مجھ سے قول و قرار ہے
یہ جنوں کی دیکھیے پختگی جو کبھی کسی نے نہ ہو سنی
مرے پیرہن کا جو تار ہے وہ ہر ایک ریشۂ خار ہے
کوئی دل کی نکلی نہ آرزو ہوا رنج و غم سے جگر لہو
پھرے خاک چھانتے کو بہ کو نہ تو صبر ہے نہ قرار ہے
پس مرگ بھی ہیں وہی ستم ہیں جفائیں روح پہ دم بدم
ادھر آتے آتے وہ پھر گئے جو سنا کہ میرا مزار ہے
مرے سینہ کو نہ ہدف کرو تپش جگر سے ڈرے رہو
پر مرغ تیر نہ جل اٹھیں کہ لہو برنگ شرار ہے
وہ خوشی دکھائی نہ چرخ نے کہ عوض میں جس کے نہ غم دئے
کبھی فرش گل ہے جو ایک شب تو مہینوں بستر خار ہے
جسے درد نالہ و آہ ہے جو شہید تیغ نگاہ ہے
شب ہجر اس کی گواہ ہے وہ حبیبؔ سینہ فگار ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.