حکومت ذہن و دل پہ جب سے قائم ہے اندھیروں کی
حکومت ذہن و دل پہ جب سے قائم ہے اندھیروں کی
اڑانیں بھول بیٹھی ہیں نئی نسلیں پرندوں کی
نہ تلخی ہی کبھی ہوگی نہ پھر تکرار لفظوں کی
اگر بنیاد مستحکم رکھی جائے گی رشتوں کی
مسافر کو فقط احساس خوش فہمی دلاتی ہیں
سڑک پر بھاگتی پرچھائیاں اکثر درختوں کی
یہ بازار سیاست ہے یہاں ہر ایک منڈی میں
تجارت عام ہوتی جا رہی ہے کھوٹے سکوں کی
تمہیں سے پوچھنا ہے آج ہم کو حضرت واعظ
اڑاؤ گے کہاں تک دھجیاں آخر اصولوں کی
تری چوکھٹ پہ لے کر آئے ہیں اشکوں کا نذرانہ
خدایا لاج رکھ لے اب تو ان مغموم بندوں کی
سحرؔ میں کس طرح مانوں مہذب ہو گئی دنیا
اچھالی جا رہی ہے آج بھی پگڑی غریبوں کی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.