حسن بدنام ہوا عشق کے افسانوں سے
حسن بدنام ہوا عشق کے افسانوں سے
ایک فتنہ ہے جو اٹھا کئی عنوانوں سے
دل ہے معمور تری یاد سے ارمانوں سے
نہ رہا گھر مرا خالی کبھی مہمانوں سے
دل شگفتہ نہ ہو کیوں آج بیابانوں سے
غم گیتی کی ہے رونق انہی ویرانوں سے
خبر فصل بہاری نے قیامت ڈھا دی
شور فریاد اٹھا کتنے ہی زندانوں سے
ہم نے سیکھا نہیں ساحل پہ بھروسہ کرنا
بڑھ کے طوفان ہوئے بھڑ گئے طوفانوں سے
کس طرح عالم اسباب کو ٹھکراتے ہیں
پوچھئے جا کے کبھی بے سر و سامانوں سے
جان دینا تو گوارا ہے مگر اے شب غم
مجھ کو اللہ بچائے ترے احسانوں سے
کشتی اپنی کبھی شرمندۂ ساحل نہ ہوئی
عمر ساری یہ الجھتے رہی طوفانوں سے
ایسے لوگوں سے رکھوں خاک توقع میں قدیرؔ
کام پڑتا ہے تو ہو جاتے ہیں انجانوں سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.