اک دم گزراں سے عمر مختصر باندھے ہوئے
اک دم گزراں سے عمر مختصر باندھے ہوئے
خاک سے ہیں شاخ گل کو بے خبر باندھے ہوئے
اک خمار عکس میں لرزاں ہے آب آئنہ
سحر حیرانی ہے کوئی فتنہ گر باندھے ہوئے
دور تک آنکھوں میں کوئی راستہ کھلتا نہیں
اور ہم صدیوں سے ہیں رخت سفر باندھے ہوئے
اوڑھنی سینے کے آدھے موڑ پر ڈھلکی ہوئی
بال ماتھے پر ذرا سے چھوڑ کر باندھے ہوئے
ہے کوئی حرف عدم معنی گری کے درمیاں
حلقۂ ابہام ہے عیب و ہنر باندھے ہوئے
پاؤں میں کھنچتی چلی جاتی ہے زنجیر سفر
رقص میں ہم بھی ہیں نقش رہ گزر باندھے ہوئے
اک سمندر جو اچھلتا ہے کناروں سے پرے
وہ ذرا سی بوند میں ہے چشم تر باندھے ہوئے
داغ ہے سینے پہ اک تعویذ کالے عشق کا
کیوں نہ پھر رکھیں اسے ہم عمر بھر باندھے ہوئے
پھر رہے ہیں کوچہ و بازار میں ہم بھی کہیں
چادر درویش میں جان و جگر باندھے ہوئے
ہے ہوائے خوش بیاں کیفیت ابر بہار
اور ہیں اوراق گل مضمون زر باندھے ہوئے
جانیے اس بار کیسی رت چلی ہے شہر میں
ہیں پرندے گھونسلوں میں بال و پر باندھے ہوئے
شہر میں نکلوں تو مجھ کو گھیرتے ہیں راستے
گھر میں رکھتے ہیں مجھے دیوار و در باندھے ہوئے
کون سنتا ہے کہانی رات بھر سرمدؔ مگر
ہے ترا ورد سخن ہم پر اثر باندھے ہوئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.