اک ماہ رو سے کل کی ملاقات بھی گئی
اک ماہ رو سے کل کی ملاقات بھی گئی
یوں میرے دل سے گرمئ جذبات بھی گئی
باغ دل حزین کو سرسبزگی کی چاہ
بے فیض اب کے بار یہ برسات بھی گئی
رقص جنوں میں محو تھے ہم شام سے مگر
عرفان ذات بھی نہ ہوا رات بھی گئی
سفاک ذہنیت کو ملا جب سے اقتدار
امن و سکوں کی ملک سے بہتات بھی گئی
پینے کے بعد عقل سلامت نہ رہ سکی
اس کشمکش میں عزت سادات بھی گئی
قابو کرے گا کون جرائم کو اب یہاں
ملکی عدالتوں سے تو حق بات بھی گئی
اب کون میری بھوک کو سفرہ عطا کرے
حصے میں جو تھی میرے وہ خیرات بھی گئی
سیرت کو کون پوچھے ہے صورت کے سامنے
چوکھٹ سے اک غریب کی بارات بھی گئی
اسعدؔ ذرا سنبھال کے کھولا کرو زباں
پچھتاؤ گے بہت ہی اگر بات بھی گئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.