انتہا صبر آزمائی کی
انتہا صبر آزمائی کی
ہے درازی شب جدائی کی
ہے برائی نصیب کی کہ مجھے
تم سے امید ہے بھلائی کی
نقش ہے سنگ آستاں پہ ترے
داستاں اپنی جبہ سائی کی
تم سے کچھ مل کے خوش ہوا ہوں کہ ہوں
دہر میں حسرت آشنائی کی
ہے فغاں بعد امتحان فغاں
پھر شکایت ہے نارسائی کی
کیا نہ کرتا وصال شادیٔ مرگ
تم نے کیوں مجھ سے کج ادائی کی
راز کھلتے گئے مرے سب پر
جس قدر اس نے خود نمائی کی
کتنے عاجز ہیں ہم کہ پاتے ہیں
بندے بندے میں لو خدائی کی
رہ گئیں دل میں حسرتیں سالکؔ
آ گئی عمر پارسائی کی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.