اس طرف آگ کا دریا ہے ادھر کھائی ہے
اس طرف آگ کا دریا ہے ادھر کھائی ہے
ہم نے بھی پار اترنے کی قسم کھائی ہے
اپنے کمرے سے نکل کر ذرا دیکھو تو سہی
دھوپ دیوار سے آنگن میں اتر آئی ہے
جن چراغوں کا ترے نام سے رشتہ ہی نہیں
ان چراغوں کی زمانے میں پذیرائی ہے
رات کی شاخ سے لٹکے ہیں ستاروں کے چراغ
گھر کی دہلیز پہ بیٹھی ہوئی تنہائی ہے
ایسا موسم ہے کہ بے برگ و ثمر ہیں اشجار
کیوں ہوا شور مچانے کو چلی آئی ہے
دھوپ کے شہر میں بادل کو ترسنے والو
آج بارش نہیں ہوگی یہ خبر آئی ہے
جس پہ دیوار کے اس پار کا منظر نہ کھلے
ایسی بینائی بھی کس کام کی بینائی ہے
اپنے اندر کا یہ عالم بھی عجب عالم ہے
بھیڑ کی بھیڑ ہے تنہائی کی تنہائی ہے
مجھ پہ الزام ہے آہستہ خرامی کا متینؔ
تیز چلتا ہوں تو احباب کی رسوائی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.