جب نغمہ زن تھیں راتیں جب بخت مہرباں تھا
جب نغمہ زن تھیں راتیں جب بخت مہرباں تھا
اپنی بھی اک زمیں تھی اپنا بھی آسماں تھا
اب ہم ہیں اور گماں پر اندیشۂ یقیں ہے
اک روز ہر یقیں پر اندیشۂ گماں تھا
ہم خاک ہو گئے ہیں اس سود کے علاوہ
جو ہے وہ رائیگاں ہے جو تھا وہ رائیگاں تھا
میں چپ کھڑا ہوا تھا حرفوں کے سائباں میں
معنی کی ہر جہت میں اک دشت بے اماں تھا
اس واہمے کی بابت پہروں یہ سوچتا ہوں
وہ ہے تو کیوں نہیں ہے وہ تھا تو پھر کہاں تھا
کل شب مری رگوں میں بجلی چمک رہی تھی
بادل گرج رہے تھے کل شب وہ میہماں تھا
جب حرف شرمساری اس کے لبوں پہ جاگا
وہ لمحۂ توانا صدیوں سے بھی کراں تھا
ہم نے بھی ترک کر دی اب جسم کی سکونت
سایوں کی سرزمیں تھی آسیب کا مکاں تھا
کل مجھ پہ خوب برسے رشک و حسد کے پتھر
تاروں کی انجمن میں یادوں کے درمیاں تھا
تھا جشن تاج پوشی بھوتوں کے اس نگر میں
سنسان تھے علاقے اور خوف کا سماں تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.