جب رونے بیٹھتا ہوں تب کیا کسر رہے ہے
جب رونے بیٹھتا ہوں تب کیا کسر رہے ہے
رومال دو دو دن تک جوں ابر تر رہے ہے
آہ سحر کی میری برچھی کے وسوسے سے
خورشید کے منہ اوپر اکثر سپر رہے ہے
آگہ تو رہیے اس کی طرز رہ و روش سے
آنے میں اس کے لیکن کس کو خبر رہے ہے
ان روزوں اتنی غفلت اچھی نہیں ادھر سے
اب اضطراب ہم کو دو دو پہر رہے ہے
آب حیات کی سی ساری روش ہے اس کی
پر جب وہ اٹھ چلے ہے ایک آدھ مر رہے ہے
تلوار اب لگا ہے بے ڈول پاس رکھنے
خون آج کل کسو کا وہ شوخ کر رہے ہے
در سے کبھو جو آتے دیکھا ہے میں نے اس کو
تب سے ادھر ہی اکثر میری نظر رہے ہے
آخر کہاں تلک ہم اک روز ہو چکیں گے
برسوں سے وعدۂ شب ہر صبح پر رہے ہے
میرؔ اب بہار آئی صحرا میں چل جنوں کر
کوئی بھی فصل گل میں نادان گھر رہے ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.