جلتے مکاں سما گئے پتھر سما گئے
جلتے مکاں سما گئے پتھر سما گئے
میری نظر میں خون کے منظر سما گئے
بے داغ ہیں ابھی مرے اجداد کے کفن
زیر زمین کتنے سکندر سما گئے
پابندی جب گلوں کے مہکنے پہ لگ گئی
میرے لباس غم میں گل تر سما گئے
ڈر ہے کہ سرکشی پہ نہ آمادہ ہو کہیں
اتنے ہمارے سر میں ستمگر سما گئے
جن کی نگاہیں غیر سے کرتی نہیں سوال
ان کی ہتھیلیوں میں مقدر سما گئے
قطروں کو موج بننے کی تحریک کیا ملی
کہنے لگے کہ ہم میں سمندر سما گئے
عرفانؔ نام سنتے ہی مجرم کہا گیا
اک پل میں جرم نام کے اندر سما گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.