جھوٹی تسلیوں پہ گزر کر رہے ہیں لوگ
جھوٹی تسلیوں پہ گزر کر رہے ہیں لوگ
کاغذ کی کشتیوں میں سفر کر رہے ہیں لوگ
اب بھی ہیں شب گزیدہ سحر کی تجلیاں
ناداں ہیں اعتبار نظر کر رہے ہیں لوگ
کیا اپنے بازوؤں پہ بھروسا نہیں رہا
کیوں بے بسی سے زیست بسر کر رہے ہیں لوگ
گلشن پرستیوں پہ نہ حرف آئے دوستو
مانا فضا کو زہر اثر کر رہے ہیں لوگ
لگتا ہے کوئی خواب سنہرے دکھا گیا
شدت سے انتظار سحر کر رہے ہیں لوگ
پہلے درخت خرمہ سے سائے کا تھا گلہ
برگد سے اب امید ثمر کر رہے ہیں لوگ
طالبؔ کسے ہے آج سخن فہمیوں سے کام
کیوں آرزوئے داد ہنر کر رہے ہیں لوگ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.