جن سے امید کرم تھی وہ ستم گر نکلے
جن سے امید کرم تھی وہ ستم گر نکلے
ہم جنہیں پھول سمجھتے تھے وہ پتھر نکلے
غم کے پردے میں نہاں خوشیوں کے منظر نکلے
اس اندھیرے میں اجالوں کے سمندر نکلے
چل رہی ہے یہاں ہر سمت بلا کی آندھی
خیر اس میں ہے کوئی گھر سے نہ باہر نکلے
میری اچھائی چھپا لی مرے ہمدردوں نے
میری رسوائی بڑی دھوم سے لے کر نکلے
کتنے ارمان سے دامن پہ سجایا تھا انہیں
ہائے یہ پھول تو کانٹے سے بھی بد تر نکلے
میں نے جن ہاتھوں کو مضبوط کیا تھا نیرؔ
آج ان ہاتھوں سے میرے لئے خنجر نکلے
مأخذ:
شعاع نیر (Pg. 72)
- مصنف: نیر دموہی
-
- ناشر: مرکز ادب، بھوپال
- سن اشاعت: 2001
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.