جس کی طلب تھی مجھ کو وہ راحت کہاں ملی
جس کی طلب تھی مجھ کو وہ راحت کہاں ملی
تم مل گئے تمہاری محبت کہاں ملی
کیا کیا دئے ہیں چشم تصور نے بھی فریب
میرے خیال سے تری صورت کہاں ملی
دل کا دیار حسن میں جا کر ملا سراغ
کھوئی کہاں تھی اور یہ دولت کہاں ملی
وہ بزم مے کدہ ہو کہ خلوت گہہ حرم
دل کو خیال دوست فرصت کہاں ملی
اس نے تو ایک بار بھی دیکھا نہ پیار سے
مجھ کو مری وفاؤں کی قیمت کہاں ملی
تلووں سے خار چنتے رہے ہیں تمام عمر
آوارگان شوق کو راحت کہاں ملی
کہتے ہیں جس کو عشق مقدر کی بات ہے
سب کو خدا کے گھر سے یہ دولت کہاں ملی
جی تو بہل گیا تری محفل میں کچھ مگر
مجھ کو غم حیات سے فرصت کہاں ملی
گزرا ہے درد حد سے تو ہنسنے لگا ہوں میں
ناصرؔ وگرنہ مجھ کو مسرت کہاں ملی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.