جو اپنے ہاتھ سے رخصت تمہیں کیا ہے ابھی
جو اپنے ہاتھ سے رخصت تمہیں کیا ہے ابھی
سیاہ رات سے سودا کوئی ہوا ہے ابھی
رکو ذرا سا مجھے سانس تو پکڑنے دو
بدن سے روح کا دامن جدا ہوا ہے ابھی
ترے دریچے سے خوشبو پیام لائی ہے
گلابی رات کا آنچل مہک رہا ہے ابھی
چراغ جان بھی سنتا ہے تیری آہٹ کو
پڑا ہوا تھا مرے پاس جل اٹھا ہے ابھی
کوئی اشارہ کرو بات کوئی بتلاؤ
سناؤ کیسے مرا نام لے لیا ہے ابھی
سنا دیا ہے مرا جرم جس نے دنیا کو
وہ اپنے آپ کی نظروں میں اک خدا ہے ابھی
شب فراق میں آنسو سلگ رہا ہے مرا
طویل رات میں جلتا ہوا دیا ہے ابھی
ابھی لٹا نہیں ہے کارواں محبت کا
مری نظر میں ترے واسطے وفا ہے ابھی
حروف چپ ہی رہے دور مختصر ہی رہا
فسانہ دل کا تری آنکھ سے سنا ہے ابھی
ابھی نہ جاؤ مری آنکھ کی حیا رکھ لو
مرے وجود میں کچا سا اک گھڑا ہے ابھی
لبوں پہ حرف کے اکرام کس طرح اتریں
مرے خیال کا مقتل سجا ہوا ہے ابھی
ہرے لباس میں ہمزاد ساتھ رہتا ہے
نگاہ شوق میں رکھ کر مجھے ملا ہے ابھی
اگرچہ دھوپ کڑی ہو گئی ہے صحرا میں
وفور شوق سے غنچہ کھلا ہوا ہے ابھی
چلا گیا ہے مگر لوٹ آئے گا نیلمؔ
وہ زود رنج سہی دوست وہ مرا ہے ابھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.