جو بھی ملتا ہے اسی کو پوجنے لگتا ہوں میں
جو بھی ملتا ہے اسی کو پوجنے لگتا ہوں میں
کیا کروں مجبوریوں ہیں گاؤں سے آیا ہوں میں
کل بھی احساسات کے شعلوں پہ تھا میرا وجود
آج بھی ہر لمحہ سونے کی طرح لگتا ہوں میں
مجھ سے ہی قائم ہے اب تک تیرا تہذیبی وقار
توڑ مت مجھ کو کہ گھر کا صدر دروازہ ہوں میں
میں ترے ساحل پہ آیا ہوں کہ دیکھوں تیرا ظرف
اے سمندر تجھ سے کس نے کہہ دیا پیاسا ہوں میں
سانس تک لینا بھی ہے دشوار جب اس شہر میں
زندگی تجھ پر مرا احسان ہے زندہ ہوں میں
لاکھ بنیادوں میں تو نے ڈھک کے رکھا ہے مجھے
اے حویلی کے کھنڈر اب بھی طرح حصہ ہوں میں
میں بضد ہوں اس پہ کہ سب مجھ کو سمجھیں آئینہ
جبکہ آئینہ بخوبی جانتا ہے کیا ہوں میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.