جو ہے نئے وقت کا تقاضا تو یہ روش اختیار کر لوں
جو ہے نئے وقت کا تقاضا تو یہ روش اختیار کر لوں
کہ خار آنکھوں میں چن کے رکھ لوں دہکتے شعلوں کو پیار کر لوں
چمن کی فطرت سمجھ رہا ہوں خزاں کو بھی جانتا ہوں لیکن
اشارے کرتے ہیں غنچہ و گل کہ بندگیٔ بہار کر لوں
یہ دیکھنا ہے رہ طلب میں ملیں گی گمراہیاں کہاں تک
فریب منزل جو دے رہے ہیں میں وہ بگولے شمار کر لوں
جنوں نے یہ مشورہ دیا ہے نہ ہو کمی ان کی جستجو میں
شعور کی مصلحت یہی ہے شکست کا اعتبار کر لوں
کہاں سے لاؤں میں وہ نگاہیں جو کشمکش خار و گل کی دیکھیں
خدا جو توفیق مجھ کو دے دے نظارۂ کار زار کر لوں
ابھرتے سورج کی روشنی کے ابھی کئی زاویے ہیں پنہاں
کرن جو پہچانتی ہے مجھ کو میں اس کا اور انتظار کر لوں
روا روی میں ہے عمر میری شکار ہوں غلبۂ سفر کا
ذرا ٹھہر جائے وقت کی رو شکایت روزگار کر لوں
مسلسل اک انقلاب کیا کیا ضمیر کو چھو رہا ہے نازشؔ
اگر کرم کا نہ آسرا ہو تو سرکشی اختیار کر لوں
مأخذ:
صدیوں کا سفر (Pg. 91)
- مصنف: نازش حیدری
-
- ناشر: مکتبہ حیدری، کراچی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.