جو کسی موڑ پر ٹھہر جاؤں
جو کسی موڑ پر ٹھہر جاؤں
راستہ پوچھے گا کدھر جاؤں
سامنے فروسٹ کا ہے دوراہا
میں ادھر جاؤں یا ادھر جاؤں
راستہ دے رہا ہے آج فلک
سوچتا ہوں کہ اپنے گھر جاؤں
قفس بے فصیل ہے یعنی
شہر ہی شہر ہے جدھر جاؤں
زرد پتوں کا قافلہ ہوں میں
کب بہار آئے کب بکھر جاؤں
شکل معدوم پر نگاہ وجود
آج منظور ہے کہ کر جاؤں
یہ مرا عکس ہے کہ یہ میں ہوں
توڑ کر آئنہ نہ ڈر جاؤں
یاد کا بے کنار دریا ہے
کشتیٔ وقت سے اتر جاؤں
میں تری یاد میں جو جیتا ہوں
بھول سکتا نہیں کہ مر جاؤں
جانتا ہوں کہ خواب ہے اسرارؔ
اس حقیقت سے بے خبر جاؤں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.