جو صحرا ہے اسے کیسے سمندر لکھ دیا جائے
جو صحرا ہے اسے کیسے سمندر لکھ دیا جائے
غزل میں کس طرح رہزن کو رہبر لکھ دیا جائے
قلم کے دوش پر ہو امتحاں کا بوجھ جس حد تک
مگر حق تو یہ ہے پتھر کو پتھر لکھ دیا جائے
کسی انعام کی خاطر نہ ہوگا ہم سے یہ ہرگز
کہ اک شاہین کو جنگلی کبوتر لکھ دیا جائے
ستم کی داستاں کس روشنائی سے رقم ہوگی
لہو کی دھار سے دفتر کا دفتر لکھ دیا جائے
کسانوں کو میسر جب نہیں دو وقت کی روٹی
تو ایسے کھیت کو بے سود و بنجر لکھ دیا جائے
ہماری تشنگی سے بھی کوئی مسرور ہوتا ہے
ہماری پیاس کو لبریز ساغر لکھ دیا جائے
قلم کو میں نے بھی تلوار آخر کر لیا طالبؔ
مری نوک قلم کو نوک خنجر لکھ دیا جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.