جو الجھی الجھی تھی دانشوری کے لہجے میں
جو الجھی الجھی تھی دانشوری کے لہجے میں
وہ بات کہہ گئے ہم سادگی کے لہجے میں
جو بات ملتی نہیں ہر کسی کے لہجے میں
کشش کچھ ایسی تھی اس اجنبی کے لہجے میں
جھلک رہا تھا کوئی غم بھی اس کی باتوں سے
وہ ہم کلام تھا یوں تو خوشی کے لہجے میں
زمانہ اس کی بڑائی کا اعتراف کرے
اگر غرور نہ ہو آدمی کے لہجے میں
وہ نرم لہجے کا مطلب غلط سمجھتا ہے
ہم اس سے بات کریں گے اسی کے لہجے میں
ملے گی غم میں بھی لذت تمہیں وسیم ملکؔ
غزل کہو تو سہی میرؔ جی کے لہجے میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.