کام جوئی راہ و رسم عام ہے
کام جوئی راہ و رسم عام ہے
جاں نثاروں کو وفا سے کام ہے
حسن کی فتنہ نگاہی کم نہیں
عشق ہی پر کیوں یہ سب الزام ہے
خون اہل دل سے جو رنگین ہے
ایسی دنیا سے مجھے کیا کام ہے
آپ اور ہوں میری بربادی پہ شاد
کیا محبت کا یہی انجام ہے
صاحب ذوق نظر تو ہو کوئی
ہم نے مانا تیرا جلوہ عام ہے
دیکھ کر دار و رسن ہمت نہ ہار
منزل مقصود بس دو گام ہے
ذرے ذرے میں یہ جوش انقلاب
اس نگاہ عشوہ گر کا کام ہے
واعظ خوش گو کی باتوں پر نہ جا
اس کے مے خانے میں خالی جام ہے
دیکھ کر تیور ترے بدلے ہوئے
ساری دنیا لرزہ بر اندام ہے
ہے وہ اک تخئیل رنگیں کی بہار
واعظوں میں جس کا جنت نام ہے
دانش امروز کے سرمایہ دار
تیری فکر سود عالم خام ہے
حسن کی اخترؔ غلط بخشی نہ پوچھ
بوالہوس پر لطف ہے انعام ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.