کہا کس نے کہ مرنا قید سے غم کی نکلنا ہے
کہا کس نے کہ مرنا قید سے غم کی نکلنا ہے
اجل تو اک حیات عشق کا پہلو بدلنا ہے
فقط صیاد ہی کا ڈر نہیں اہل نشیمن کو
ابھی برق بلا کی زد سے بھی بچ کر نکلنا ہے
لب ساحل پہنچنے کی خوشی کیسی ابھی اے دل
تلاطم خیز طوفانوں سے ٹکرا کر نکلنا ہے
ابھی ان ابتدائی مشکلوں پر رنج و غم کیسا
ہمیں تو ورطۂ بحر حوادث ہی میں پلنا ہے
بلا سے حق بیانی پر سزا ملتی ہے بھگتیں گے
ہمیں بھی سرمد و منصور ہی کی راہ چلنا ہے
بھلا تم مصلحت اس ضبط سوز غم کی کیا جانو
جو پھونکیں ظلم کے خرمن کو وہ شعلے اگلنا ہے
یہ رسم مے کدہ ہے گاہ مستی گاہ ہشیاری
سنبھل کر گر چکے اب گر کے پھر ہم کو سنبھلنا ہے
وہ ہوں گے اور جو پھولوں کی سیجوں پر ہیں خوابیدہ
ہمیں اے دورئ منزل ابھی کانٹوں پہ چلنا ہے
مأخذ:
(Pg. 61)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.