کئی ستارے یہاں ٹوٹتے بکھرتے ہیں
سب اپنی سطح سے آخر کہاں ابھرتے ہیں
نہ جانے کتنے عذابوں میں مبتلا ہم ہیں
اسی لیے تو نئی آرزو سے ڈرتے ہیں
ہم ایک بار مہیا نہ کر سکے تجھ کو
ہزار رنگ تری جستجو میں بھرتے ہیں
یہ جگنوؤں کی چمک روشنی نظر بھر کی
ہوا میں اڑتے مسافر کہاں ٹھہرتے ہیں
نفس نفس کے لیے سلسلے تلاش کرو
ہمیشہ لوگ یہاں قربتوں پہ مرتے ہیں
میں کوئی بہتا ہوا بیکراں سمندر ہوں
اک آئینے میں ہزار آئینے ابھرتے ہیں
وہ پستیاں اسی انسان کا مقدر ہیں
بلندیوں سے فرشتے جہاں اترتے ہیں
ہو اپنا قرب میسر تو کچھ بتائیں بھی
کہاں کہاں سے ترے ساتھ ہم گزرتے ہیں
حیاتؔ کچھ تو کہو دوستوں کی محفل میں
غموں کی بھیڑ میں اپنے بھی غم نکھرتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.