کرم بھی حسن کے بن کر عتاب گزرے ہیں
کرم بھی حسن کے بن کر عتاب گزرے ہیں
نہ پوچھ عشق پہ کتنے عذاب گزرے ہیں
بڑے قریب سے دیکھا ہے میں نے آج ان کو
وہ سامنے سے مرے بے حجاب گزرے ہیں
نظام عشق تغیر پذیر ہو نہ سکا
وگرنہ یوں تو بہت انقلاب گزرے ہیں
پھسل گئے ہیں جہاں پاؤں اہل دانش کے
وہاں سے اہل جنوں کامیاب گزرے ہیں
سبھی نے شوخیاں بخشی ہیں کچھ تخیل کو
مرے قریب سے جتنے شباب گزرے ہیں
تری نگاہ تغافل تو خوب واقف ہے
مری حیات میں کتنے سراب گزرے ہیں
ہم اہل دل تری رسوائیوں کے پیش نظر
جدھر سے گزرے بصد اجتناب گزرے ہیں
تمہارے روئے درخشاں کی جب بھی یاد آئی
مری نظر سے مہ و آفتاب گزرے ہیں
فروغ حسن بہاراں تو دیکھیے ناصرؔ
چمن سے شعلہ و گل بے نقاب گزرے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.