کرب ہی کرب ہے تسکین کے امکاں کے قریب
کرب ہی کرب ہے تسکین کے امکاں کے قریب
پھر تری یاد کا نشتر ہے رگ جاں کے قریب
فطرتاً عقل کو یہ بات گوارہ ہی نہیں
دست وحشت کی رسائی ہو گریباں کے قریب
ان سے کہتا ہوں جو تدبیر رفو کرتے ہیں
چاک دل بھی ہے مرے چاک گریباں کے قریب
فکر انساں کی رسائی ہے فلک پر لیکن
کاش پہنچے یہ علاج غم انساں کے قریب
اپنی ہی آگ میں اب تو اسے جلنا ہوگا
کوئی پروانہ نہیں شمع فروزاں کے قریب
سایہ داری پہ وہ نازاں تھا مگر میرے لیے
دھوپ ہے اس شجر زود پشیماں کے قریب
عدم آباد کی منزل ہے بہت دور مگر
شام ہوتی ہے مسافر کی بیاباں کے قریب
وہ تصور کی حدوں سے ہے بہت دور تو پھر
دستکیں کون یہ دیتا ہے رگ جاں کے قریب
اے ضیاؔ ہم سے ہے تاریخ زمانہ واقف
ہم نے ساحل کی بنا ڈالی ہے طوفاں کے قریب
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.