Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کروچے کا نظریۂ اظہاریت

قمر جمیل

کروچے کا نظریۂ اظہاریت

قمر جمیل

MORE BYقمر جمیل

    کروچے کے نظریہ اظہاریت کے سلسلے میں وجدان سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ کروچے کے زمانے میں تاثریت، مارکسیت اور خالص شاعری کا بہت چرچا تھا لیکن کروچے تاثریت کو اس بنیاد پر رد کر دیتا ہے کہ تاثراتی آرٹ انسان کو اسی دھرتی کے مسائل میں اْلجھا ہوا چھوڑ دیتا ہے اور یہ کہ تاثراتی آرٹ میں انسان کی روحانی وحدت کا اظہار نہیں ہونے پاتا۔ آرٹ میں بلندی اور عظمت ہونی چاہیے۔ یہ عظمت آفاقیت کے احساس سے پیدا ہوتی ہے کروچے کہتا ہے کہ تاثراتی آرٹ میں نہ عظمت ہوتی ہے اور نہ وسعت۔ خالص شاعری الفاظ سے وہی تاثر پیدا کرنا چاہتی ہے جو موسیقی سے پیدا ہوتا ہے۔ خالص شاعری میں یقین رکھنے والے زبان کے علامتی جوہر پر زور دیتے ہیں۔ ان کی توجہ معانی سے زیادہ الفاظ کی صوتی خصوصیات پر ہوتی ہے۔ ایسے لوگ معانی کی بندشوں سے الفاظ کو زیادہ سے زیادہ آزاد کر کے صرف الفاظ کی ایمائیت سے کام لینا چاہتے ہیں۔ میلار مے کہتا تھا کہ الفاظ خود ابتداء کر دیتے ہیں اور معانی تخلیق کرتے ہیں یعنی الفاظ شاعر کے قصد و ارادہ سے آزاد ہوتے ہیں۔ خالص شاعری میں روایتی شاعری اپنے نقطہ اختتام Vanishing Point پر آجاتی ہے اور اس کی جگہ شاعری کا میڈیم لے لیتا ہے۔

    کروچے تاثراتی آرٹ کا مخالف تو تھا ہی خالص شاعری کا بھی سخت مخالف تھا۔ خالص شاعری کے سلسلے میں وہ کہتا ہے کہ جس طرح پھول پودے کے بغیرنہیں ہوتا اور پودے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی جڑیں زمین میں ہوں اسی طرح شاعری بھی زندگی سے بے تعلق ہو کر نہیں رہ سکتی۔ آرٹ کا تعلق انسان کی روحانی وحدت سے ہوتا ہے اور یہ روحانی وحدت آرٹ میں اپنا اظہار کرتی ہے۔ اپنے ہر کام میں انسان اپنی روح کی وحدت ہی سے قوت حاصل کرتا ہے۔

    کروچے کا خیال تھا کہ خالص شاعر صرف اپنی روح کے دھندلکوں میں زندہ رہتا ہے وہ اپنی باطنی زندگی کا غم بھی نہیں کر سکتا حالانکہ یہی باطنی زندگی شاعر کی سب سے بڑی دولت ہوتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ چڑیاں صرف چہکنے کی خاطر چہکتی ہیں اور چہکنے ہی میں اپنی ساری زندگی کا اظہار کر دیتی ہیں اس فقرے سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ کروچے آرٹ کو کسی مقصد کا ذریعہ نہیں بنانا چاہتا حالانکہ ایک زمانے میں مارکس کی ’’سرمایہ‘‘ کے مطالعہ سے اس میں مارکسیت کے لیے بڑا جوش و خروش پیدا ہو گیا تھا لیکن یہ خیال کہ آرٹ طبقاتی مفادات کے تابع ہوتا ہے اْس کے دل میں جگہ نہیں بنا سکا۔

    کروچے مارکسیت، تاثریت اور خالص شاعری کو رد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ آرٹ امیج تخلیق کرتا ہے اور یہ تخلیق وجدان سے ظہور کرتی ہے اس کے لیے نازک ادراک اور اعلیٰ تخیل کی ضرورت ہوتی ہے۔ آرٹ کا تعلق وجدان سے ہوتا ہے۔ آرٹ میں بیرونی عمل تکنیک کے ذریعے سامنے آتا ہے وہ کہتا ہے۔

    ’’جب ہم اندرونی لفظ پر قابو پالیتے ہیں کسی مجسمے یا شکل کو واضح طور پر اپنے تصور میں لے آتے ہیں جب ہمیں موسیقی کا کوئی تھیم مل جاتا ہے تو اظہار پیدا ہوتا ہے اور مکمل ہو جاتا ہے کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہوتی۔ تب اگر ہم اپنا منہ کھولتے ہیں اور بولتے ہیں اور گاتے ہیں تو ہم دراصل کرتے کیا ہیں جو کچھ ہم اپنے باطن میں آہستہ آہستہ بول چکے ہوتے ہیں اور جو کچھ ہم اپنے اندر پہلے ہی گا چکے ہوتے ہیں وہ ہم بہ آواز بلند گاتے ہیں۔

    کروچے کے خیال میں علم دو طرح کا ہوتا ہے ایک وجدانی اور دوسرا منطقی۔ وجدانی علِم تخیل سے حاصل ہوتا ہے اور منطقی علِم Intellcet سے آرٹ کا تعلق وجدانی علم سے ہوتا ہے۔ کروچے نے۱۹۰۲ء میں اپنی کتاب Aesthetics میں بتایا تھا کہ شاعرانہ اظہار جذبات کا براہ راست اظہار نہیں ہے بلکہ وجدان کا اظہار ہے وہ کہتا ہے۔

    جب ہم پیانو پر اپنی انگلیاں رکھتے ہیں۔ تو ایسا ہم اپنے ارادے سے کرتے ہیں اس کا تعلق آرٹ کی جمالیاتی فعلیت سے نہیں ہوتا بلکہ عملی فعلیت سے ہوتا ہے اور جس پر ہم اپنے باطن میں مختصراً اور تیزی سے عملدرآمد کر چکے ہوتے ہیں اسی کو ہم خارجی طور پر بھی انجام دیتے ہیں۔

    کروچے کا خیال ہے کہ امیج اشیائے مدرکہ کے جوہر کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ خوبصورتی کا تعلق خارجی ہیئت کے مقابلے میں باطنی امیج سے زیادہ ہوتا ہے شیکسپیئر اور ہم میں فرق صرف یہ نہیں ہے کہ شیکسپیئرخارجی اظہار کی تکنیک پر ہم سے زیادہ قدرت رکھتا تھا اور یہ کہ ہم شیکسپیئر سے زیادہ بڑے بڑے خیالات رکھتے ہیں لیکن ہمارے پاس موزوں الفاظ نہیں ہوتے ایسا سمجھنا خود فریبی ہے۔ صلاحیت کا فرق صرف اس بات میں نہیں ہے کہ شیکسپیئر زیادہ بہتر اظہار کر سکتا تھا بلکہ شیکسپیئر داخلی طور پر بھی اس امیج کو تخلیق کرنے کی زیادہ صلاحیت رکھتا تھا۔ کروچے کے خیال میں کہ آرٹ کے نمونے کو دیکھ کر جب کوئی لطف اندوز ہوتا ہے تو دراصل اس میں اس کا اپنا رجحان کام کر رہا ہوتا ہے۔ تخلیق کار اور تماشائی کے درمیان جمالیاتی راز در اصل Expressive امیج ہے۔

    اب سوال یہ ہے کہ وجدان سے کیا مراد ہے۔ وجدان سے دراصل وہ صلاحیت مراد ہے جس کی مدد سے انسان کا ذہن براہ راست علم حاصل کرتا ہے بغیر کسی استدلال اور تجزیہ کے۔ یعنی وجدان ہم پر براہ راست استدلال اور منطقی تجزیہ کے بغیر حقیقت کو منکشف کرتا ہے دوسرے لفظوں میں وجدان عقلی تفکر اور استدلال کے بغیر حقیقت تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔ چنانچہ اقبال نے بھی کہا ہے کہ خداشناسی کا ذریعہ خرد نہیں عشق ہے جسے فلسفہ کی زبان میں وجدان کہتے ہیں۔ برگساں نے بھی اپنی کتاب تخلیقی ارتقاء میں وجدان کو تعقل سے الگ ایک صلاحیت قرار دیا ہے۔ وہ کہتا ہے

    But it is to the very inwardness of life that intuition. leads us by intuition. I mean instinct that has become disinterested, self conscious, capable of reflecting upon its object and of enlarging it indefinitely.

    برگساں کا خیال ہے کہ یہ ناممکن نہیں ہے کیوں کہ انسان میں جمالیاتی صلاحیت موجود ہے جو اس کا ثبوت ہے انسان کا شعور دو چیزوں میں بٹ گیا ہے وجدان میں اور ذہانت میں کیوں کہ انسان کی ضرورت بھی یہ ہے کہ وہ مادے سے بھی نمٹے اور ساتھ ہی ساتھ زندگی کے دھارے کے پیچھے بھی چلے۔ شعور کا یہ دُہرا پن خود حقیقت کے دُہرے ہونے کے باعث ہے یعنی حقیقت کی بھی دو ہتیں ہیں۔ وجدان اور تعقل برگساں کا خیال ہے کہ شاعر کا وجدان ماہر

    ما بعد الطبیعیات کی تحلیل سے زیادہ اظہارِ صداقت کرتا ہے۔

    اب یہ دیکھیے کہ اظہار سے کیا مراد ہے اٹھارویں صدی میں انگریزی کے مشہور شاعر پوپ نے کہا تھا کہ سچا اظہار سورج کی طرح ہر اس چیز کو جس پر وہ چمکتا ہے واضح کر دیتا ہے۔ والٹر پیٹر نے۱۸۸۸ء میں کہا تھا۔

    ’’ہم جسے اظہار کہتے ہیں وہ دراصل زبان کا باطنی وژن سے انتہائی باریکیوں میں بھی مطابقت کا نام ہے۔ ‘‘

    (اسلوب پرمضمون)

    لغت کے ماہرین بھی کہتے ہیں کہ اظہار کا مطلب ہے کسی اندرونی حقیقت کو خارجی شکل دینا کسی ایک چیز کا دوسری چیز سے اظہار کشاف تنقیدی اصطلاحات میں لکھا ہے۔

    ’’ کروچے کے نظریہ اظہار اور اظہاریت کی تحریک کے وجود میں آنے سے پہلے اظہار کے معنی تھے اپنے مافی الضمیر کو دوسروں کے لیے کسی خارجی شکل مثلاً الفاظ، الوان اور خطوط میں منتقل کرنا۔ چونکہ کلام کے لیے لازم تھا کہ وہ دوسروں

    کے لیے بامعنی ہو اس لیے دنیائے ادب میں اظہار اور ابلاغ کے درمیان نظریاتی فاصلے بھی حائل نہ تھے لیکن اب اظہار کے لیے لازم نہیں رہا کہ وہ دوسروں کے لیے با معنی ہو اس لیے ابلاغ سے اس کا رشتہ کٹ چکا ہے۔

    اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاعر کے وژن کے زبان سے نازک تعلق کا نام اظہار ہے۔ آرٹ میں رنگ، لکیر، ہئیت اور الفاظ کی ایسی ترتیب سے جس میں لَے اور آہنگ ہوتا ہے جذبات کا اظہار ہوتا ہے۔

    RECITATIONS

    ظفر جمیل

    ظفر جمیل,

    ظفر جمیل

    volume01 article09 ظفر جمیل

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے