خاموشی تری چیخ سے یہ بھید کھلا ہے
خاموشی تری چیخ سے یہ بھید کھلا ہے
سناٹے سے بھی لپٹی ہوئی کوئی صدا ہے
اے ذوق نظر دیکھ ترے سامنے کیا ہے
کہنہ ہی سہی آنکھ پہ منظر تو نیا ہے
وہ چاند نہ نکلا تو ستارے بھی تھے گم صم
سورج بھی بہت دیر سے بیدار ہوا ہے
چل تجھ کو لئے جاتا ہوں دکھلانے سمندر
دریا مری کشتی میں جو تو بیٹھ گیا ہے
واجب ہے اسے چوم کے آنکھوں سے لگاؤں
اک حرف جو تسبیح محبت سے گرا ہے
منزل سے کبھی میری شناسائی نہیں تھی
رستہ ہی مرا یار تھا جو روٹھ گیا ہے
چرچا ہے بہت شہر میں جس موج نمو کا
وہ خواب مری آنکھ سے ہی ٹپکا ہوا ہے
اے صورت مہتاب ترا ہاتھ بھی آخر
لہروں کی روانی میں کہیں چھوٹ گیا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.