خلاف ساری لکیریں تھیں ہاتھ ملتے کیا
خلاف ساری لکیریں تھیں ہاتھ ملتے کیا
جمی تھی چہرے پہ گرد آئنہ بدلتے کیا
ہوائیں راہ میں ڈیرا جمائے بیٹھی تھیں
چراغ دل کو لیے دو قدم بھی چلتے کیا
یگوں سے جسم کے اندر الاؤ روشن ہے
کسی کی آنچ سے میرے حواس جلتے کیا
چلی وہ آندھی کہ جنگل بھی کانپ کانپ اٹھا
کہ ہم تو شاخ سے ٹوٹے تھے پھر سنبھلتے کیا
پڑی کرن تو ندی بن گئی پہاڑ کی برف
وہ ٹھہرے سنگ ذرا دیر میں پگھلتے کیا
ندی کے دونوں کنارے ہیں آس پاس مگر
جنم کے فاصلے تھے قربتوں میں ڈھلتے کیا
مأخذ:
Shaam Hote Hi (Pg. B-56 E-57)
- مصنف: راشد انور راشد
-
- اشاعت: 2016
- ناشر: راشد انور راشد
- سن اشاعت: 2007
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.