کھلے جو پھول تو منہ چھپ گیا ستاروں کا
کھلے جو پھول تو منہ چھپ گیا ستاروں کا
مثال ابر چلا کارواں بہاروں کا
نہ مجھ سے پوچھ شب ہجر دل پہ کیا گزری
یہ دیکھ حال ہے کیا میرے غم گساروں کا
نئی بہار ہنسے اک نیا چمن کھل جائے
سمجھ سکے کوئی مطلب اگر اشاروں کا
شب سیاہ کے لمحے گزار لینے دو
گھڑی گھڑی نہ کرو ذکر ماہ پاروں کا
دکھائی دیتی ہے اس طرح روپ رنگ کی بات
فضا میں رقص ہو جس طرح ابر پاروں کا
ہوا نہ راہ میں حائل کوئی شگوفہ بھی
رواں دواں ہی رہا قافلہ بہاروں کا
مجھے بھی اہل جہاں بھول جائیں گے شہزادؔ
کسے خیال ہے ڈوبے ہوئے ستاروں کا
- کتاب : Noquush (Pg. B-364 E-378)
- مطبع : Nuqoosh Press Lahore (May June 1954)
- اشاعت : May June 1954
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.