خود اپنی دھند سے ہوتا نکل بھی سکتا ہوں
خود اپنی دھند سے ہوتا نکل بھی سکتا ہوں
میں آج تک نہیں نکلا نکل بھی سکتا ہوں
ترے افق پہ نکل کر غروب ہوتے ہوئے
کسی طرف سے دوبارہ نکل بھی سکتا ہوں
بہت امید نہیں ہے مری نمو کی مگر
کہیں کہیں سے ذرا سا نکل بھی سکتا ہوں
نہ کر غرور بہت صید افگنی پہ کہ میں
تمھارے دام میں آتا نکل بھی سکتا ہوں
میں چاہتا ہوں کہ اب کوئی میرے ساتھ چلے
اک ایسی رہ پہ کہ تنہا نکل بھی سکتا ہوں
میں اس طرح کا نہیں پھر بھی آدمی ہی تو ہوں
حضر کرو کہ میں ایسا نکل بھی سکتا ہوں
ڈٹا ہوا ہوں محبت میں آفتاب حسینؔ
اگرچہ جان بچاتا نکل بھی سکتا ہوں
- کتاب : محبت جب نہیں ہوگی (Pg. 104)
- Author : آفتاب حسین
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2022)
- اشاعت : 2nd
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.