خورشید جھانکتا ہے ردائے سحاب سے
خورشید جھانکتا ہے ردائے سحاب سے
یا نور چھن رہا ہے کسی کے نقاب سے
باہر جو آج دیکھ لیا ہے حجاب سے
سورج لرز رہا ہے تمھارے شباب سے
ناصح ڈرا رہے تھے خدا کے عذاب سے
خود ہی جناب باز نہ آئے شراب سے
لمحے گزر چکے ہیں جو پھولوں کی سیج پر
اس دور پر خطر میں وہ لگتے ہیں خواب سے
خود کو تو پہلے دیکھیے پھر کہئے بے وفا
بس اتنی التجا ہے ہماری جناب سے
ہر روز اک نہ اک نئی ضد ہے زبان پر
تنگ آ گیا ہوں میں دل خانہ خراب سے
اہل وفا میں میرا وہی نام پڑ گیا
تم نے مجھے نواز دیا جس خطاب سے
کن منزلوں پہ میرا نشان قدم نہیں
پوچھو مرا مقام مہ و آفتاب سے
جو حسن کا کہیں بھی تحفظ نہ کر سکے
پھر کون سا ہے فائدہ ایسی نقاب سے
سایہ بھی جس حسین کا ڈھونڈے نہ مل سکا
بے مثل وہ خدا کے ہوئے انتخاب سے
سن کر ہمارے شعر وہ کچھ مسکرا دئے
فاروقؔ آج ہم بھی رہے کامیاب سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.