کہ رہ نہ جائیں بدن پر سراغ پانی کے
کہ رہ نہ جائیں بدن پر سراغ پانی کے
لہو سے دھو رہے ہیں ہم یہ داغ پانی کے
کسی کو پار لگایا کسی کو غرق کیا
یہی بچے کھچے سے ہیں فراغ پانی کے
الگ روایتیں تھیں خواب زاد نگری کی
شراب کے تھے گھڑے اور ایاغ پانی کے
نہیں ہے ضعم حرارت وگرنہ ہم جیسے
ٹھکانے پل میں لگا دیں دماغ پانی کے
منائی خوب دوالی کہ میرے سائیں نے
فصیل شب پے جلائے چراغ پانی کے
درخت نیند کے نقاشؔ پھول سپنوں کے
چلو بنائیں کہیں سبز باغ پانی کے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.