کس سفر میں ہیں کہ اب تک راستے نادیدہ ہیں
کس سفر میں ہیں کہ اب تک راستے نادیدہ ہیں
آسماں پہ شمعیں روشن ہیں مگر خوابیدہ ہیں
کتنی نم ہے آنسوؤں سے یہ صنم خانے کی خاک
یہ طواف گل کے لمحے کتنے آتش دیدہ ہیں
یہ گلستاں ہے کہ چلتے ہیں تمناؤں کے خواب
یہ ہوا ہے یا بیاباں کے قدم لرزیدہ ہیں
ایک بستی عشق کی آباد ہے دل کے قریب
لیکن اس بستی کے رستے کس قدر پیچیدہ ہیں
آج بھی ہر پھول میں بوئے وفا آوارہ ہے
آج بھی ہر زخم میں تیرے کرم پوشیدہ ہیں
آج گھر کے آئنے میں صبح سے اک شخص ہے
اور کھڑکی میں ستارے شام سے پیچیدہ ہیں
رہ گزر کہتی ہے جاگ اے ماہتاب شام یار
ہم سر بازار چلتے ہیں مگر خوابیدہ ہیں
آئنے میں کس کی آنکھیں دیکھتا ہوں میں جمیلؔ
دو کنول ہیں بیچ پانی میں مگر نم دیدہ ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.