کسی کی جبہ سائی سے کبھی گھستا نہیں پتھر
کسی کی جبہ سائی سے کبھی گھستا نہیں پتھر
وہ چوکھٹ موم کی چوکھٹ ہے یا میری جبیں پتھر
کھلا اب رکھتے ہیں پہلو میں پنہاں نازنیں پتھر
نہ تھا معلوم ہیں قلب بتان و مہ جبیں پتھر
بٹھایا خاتم عزت پہ تیرے نام نامی نے
وگرنہ ہے یہ ظاہر تھا حقیقت میں نگیں پتھر
دکھائے پھر نہ کیوں تاثیر اپنی جذب روحانی
یقیں ہو جائے جب حاجت روا ہے بالیقیں پتھر
تلاش یار میں کیا خار دامن گیر ہمت ہوں
ہوئے نادم ملے جب سد رہ بن کر کہیں پتھر
جو میں اے کوہکن دوں جان شیریں عشق شیریں میں
تو دکھلائے بجائے شیر جوئے آبگیں ادائیوں پتھر
گرا دوں فیض اعجاز نبوت سے وہ مومن ہوں
چھپائیں پھر مخالف گر میان آستیں پتھر
پس مردن رہے قلب و جگر میں گر یہی سوزش
تو لوح سنگ مرمر ہوگی از خود آتشیں پتھر
یہ کہتا ہے کسی نا مہرباں کا مہرباں ہونا
پسیجیں گے تری گرمی سے آہ آتشیں پتھر
گریں ہر سنگ دل پر بجلیاں ایسی حوادث کی
کہ دیتے ہیں گواہی تیری آہ آتشیں پتھر
حبیبؔ آئے کہاں سے تازگی نخل مضامیں میں
جہاں تک دیکھیے ہے یک قلم یہ گل زمیں پتھر
مأخذ:
Deewan-e-habeeb (Pg. ebook-112 page-93)
- مصنف: حبیب موسوی
-
- ناشر: افق مطبع شمشی, حیدرآباد
- سن اشاعت: 1900
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.