کسی کو جنگ میں یوں بھی ہرانا پڑتا ہے
کسی کو جنگ میں یوں بھی ہرانا پڑتا ہے
کہ خود ہی تیر پہ جا کر نشانہ پڑتا ہے
تمہیں تو شہر میں بس آنا جانا پڑتا ہے
ہمیں یہ رنج مسلسل اٹھانا پڑتا ہے
سخن سرائی فقط شغل واہ واہ نہیں
ہمیں تو ٹوٹ کے خود کو بنانا پڑتا ہے
لہو میں ناچتی رہتی ہے مستقل کوئی شے
اور اس کا ساتھ ہمیں بھی نبھانا پڑتا ہے
کبھی وہ مجھ سے خیالوں میں روٹھ جاتا ہے
پھر اس کو خواب میں جا کر منانا پڑتا ہے
چھپائے رکھو گے کب تک دل و دماغ کا حال
مشاعرہ ہے یہاں تو سنانا پڑتا ہے
یہ عہد بد گماں قصے کہانیوں کا نہیں
یہاں تو معجزہ کر کے دکھانا پڑتا ہے
کسی مہیب اندھیرے کی قبر ہے شاید
جہاں چراغ مسلسل جلانا پڑتا ہے
پٹخ دیا گیا لا کر مجھے یہاں مظہرؔ
میں کیوں یہاں ہوں مجھے خود بتانا پڑتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.