کتابیں میری ساری جل رہی تھیں خواب کیسا تھا
کتابیں میری ساری جل رہی تھیں خواب کیسا تھا
سوا نیزے پہ سورج تھا تو پھر مہتاب کیسا تھا
سواد شب ردائے تیرگی کی وسعتیں اوڑھے
بھٹکتا پھر رہا تھا کرمک شب تاب کیسا تھا
شناور میں بھی تھا بھوکے نہنگوں کے سمندر میں
مرے اطراف لیکن خون کا گرداب کیسا تھا
میں اپنی زندگی کو لمحہ لمحہ کھوج بھی لیتا
مگر وہ قطرہ قطرہ پیاس کا زہراب کیسا تھا
وہ نس نس میں سما کر بھی گریزاں مجھ سے کیوں کر تھا
وہ میرا ہو گیا تھا اور پھر نایاب کیسا تھا
متین اقبالؔ اتنی بات تم نے بھی نہیں سمجھی
محبت کا وہ دریا اس قدر پایاب کیسا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.