کیا بتائیں غم فرقت میں کہاں سے گزرے
کیا بتائیں غم فرقت میں کہاں سے گزرے
موسم گل سے جو نکلے تو خزاں سے گزرے
دل سے آنکھوں سے مکینوں سے مکاں سے گزرے
درد پھر درد ہے جب چاہے جہاں سے گزرے
حسن کی شوخ سری کا یہی حاصل نکلا
آتش عشق بڑھی آہ و فغاں سے گزرے
رقص کرتے ہی رہے خواب دھنوں پر لیکن
سانس کے تار سبھی سوز نہاں سے گزرے
با وضو ہو کے مرا ذکر جو کرتے تھے کبھی
آج پلٹے ہیں زباں سے وہ بیاں سے گزرے
وہ محبت ہو کے ایثار و وفا ہو ذاکرؔ
عشق کے تیر شب و روز کماں سے گزرے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.