کیا ہوا مرکز ہستی اگر انساں نہ ہوا
کیا ہوا مرکز ہستی اگر انساں نہ ہوا
آبرو خاک ہے قطرے کی جو طوفاں نہ ہوا
سخت مشکل ہے کہ ہمت یہ ہوئی سہل پسند
غیر ممکن رہا وہ کام جو آساں نہ ہوا
شرم بھی آتی ہے یہ کہتے اور افسوس بھی ہے
آدمی یوں تو سبھی کچھ ہوا انساں نہ ہوا
جامہ پہنے رہا پروانوں کی جاں بازی کا
شعلہ فانوس کے پردے میں بھی عریاں نہ ہوا
کر گیا آنکھوں کو خیرہ وہ فروغ جلوہ
کس لیے نور ہدیٰ پردے میں پنہاں نہ ہوا
کھیل سمجھا کیے عالم کے کرشموں کو ہم
دل خود رفتہ کسی بات سے حیراں نہ ہوا
پھر عجب کیا ہے عدم سے جو ہوئی دلچسپی
درخور وسعت دل عالم امکاں نہ ہوا
ہیں مرے دل میں وہ آہیں نہ بنیں جو بجلی
میری آنکھوں میں وہ قطرہ ہے جو طوفاں نہ ہوا
حوصلہ کس کو ہے دل چیر کے دکھلاؤں کسے
وہ شرر اس میں ہے جو سنگ میں پنہاں نہ ہوا
غم رہا ان کو جو دوزخ میں پڑے جلتے ہیں
میرے خوش ہونے کا جنت میں بھی ساماں نہ ہوا
دو جگہ دیر میں یا دار پہ تم کیفیؔ کو
کافر عشق کبھی دشمن ایماں نہ ہوا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.